Tuesday, January 13, 2015

حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ



جب ابرہ کی افواج مکہ مکرمہ کے قربب پہنچ گئی اور مالک کعبہ، جو طاقت و قوت ، قدرت و استعداد میں لاثانی ہے ، کی فوج نمودار ہوئی ۔ یہ ابابیل نام کا پرندہ تھا ۔جو ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں اٹھائے، کنکریوں سے لیس تھا ۔

 یہ کمزور چڑیاں ،طاقتور ہاتھیوں کے خالق کے حکم سے اپنے رب کی طاقت کا مظہر بنیں ۔ چڑیوں کو کون کیسے روکے ۔ کنکر نے ہاتھی ، گھوڑے یا سوار کو کھایا ہوا بھس بنانے میں کچھ تمیز نہ کی ۔

 مالک کی چاہت یہ تھی کہ وہ ابن آدم کو یاد دہانی کرا دے کہ قوت ، طاقت ، سدا غلبہ اور حکم اسی واحد و احد اور اکیلے کا ہے ۔ بے شک قہر و جبر اورانتقام اس کی صفات ہیں مگر اس نے خود ہی رحمت ، درگذر ،معافی اور کرامت کو اپنی دوسری صفات پر غالب کر لیا ہے ۔

اللہ کو پسند نہیں کہ کوئی دشمن مکہ میں داخل ہو، کوئی ابرہ ہو کہ مشرک یا کافر ہو ،اللہ کے گھر کو تباہ کرنے کی نیت سے آنے والوں کی باقیات عجائب گھر میں داستان عبرت ہیں اور بیت اللہ بصورت قبلہ آج بھی صیح و سالم موجود ہے ۔

 اے راہیا، تیرا نفس ہی تیرا دشمن ہے اور تیرا قلب تیرا کعبہ ہے تیرا کعبہ ضرور دشمن کے حملہ کی زد میں آئے گا اور تیرا بچنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں اپنے کعبے کی حفاظت کے لیے اس مالک کی طرف متوجہ ہوں جو کعبہ کی حفاظت کے لیے ابابیلیں بھیجتا ہے اور التجا کرتا ہوں کہ میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے ایک ابابیل بھیج دے۔

جیسے بییت اللہ مکہ شہر میں ہے اور اسکی حفاظت کے لیے اللہ نے دشمن کی فوج کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا، میری التجا یہ ہے کہ میرے کعبہ قلب کی حفاظت کے لیے ابابیلوں کا لشکر بھیج تاکہ میرا دشمن ، ابلیس، شہر سے باہر ہی روک لیا جائے ، اس بظاہر طاقتور دشمن سے بچنا محال ہے الا یہ کہ تیری رحمت کی ایک ابابیل میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے آئے ۔

 اللہ نے اپنےگھر کی حفاظت کے لیے لشکر بھجوایا مگر میرے دل کے کعبہ کی حفاظت کے لیے رحمت کی ایک ابابیل ہی کافی ہے۔تیری بھجوائی ہوئی رحمت کی اکلوتی ابابیل بطور حفاظت میرے شہر پر پرواز کرتی رہے اور میرے شہر سے باہر جب 'تو ہی تو' کی آنے والی آواز مدہم ہونے لگے تو یہی میرے خوف اور مدد کے لیے پکار ہو گی ۔

میرا شہر کچی خاک سے بنا ہوا جسم ہے اور اس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہیں ، لیکن اس کی حفاظت صرف تیرے ذکر طیب ہی سے ممکن ہے ۔اس دنیا میں میرے پاس ٹھکانہ بس ایک کچی مٹی کا جسم ہے اور میرا نفس [ابرہ] اسے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، 

اس کی حفاظت 
 تیری ابابیل رحمت مدد گار رہے ورنہ یہ کچا ٹھکانہ بھی نہ رہے گا ۔میں بہت گناہ گار اور نکما ہوں ، میرے پاس کوئی اچھا عمل بھی نہیں ۔ تیرے سامنے آنے کے 
لیے شکستہ اعمال باعث شرمساری ہیں مگر تیری رحمت ہی کا سہارا اور امید ہے ۔میں تیری رحمت کے نور میں رہوں اور تیرے معزز و مکرم محبوب نبی کے صدقے ان کی راہ میرے لیے منور رہے ۔

کہ تاریکی میں گمراہی سے محفوظ رہوں ۔میرے سامنے طویل سفر ہے ، راہ کی طوالت اور صعوبتوں کا احساس ہی نہ کیا ، سواری بھی نہ خریدی  ، میں نے تو اور ہی خریداریوں میں زیادہ وقت گزار دیا ہے ۔میرے طویل سفر کی راہ مشکل، تاریک اور انجانی ہے، تیری رحمت کے نور میں ایسا رہنماء ساتھی ہو کہ راہ سہل ، منزل روشن تر ہو۔  




  حاجی محمد افسر جنجوعہ راہیا [1922 -2014 راولپنڈی] راہ سلوک کے مسافر ، اور نعت گو   شاعر تھے ۔ان کی چار مطبوعہ کتب پنجابی پوٹھواری میں ہيں ۔ اور ہارلے سٹریٹ کے قبرستان میں اسودہ خاک ہیں